حضرت عباس علیہ السلام 

 جناب قمر بنی ہاشم  حضرت ابو لفضل العباس   جناب امیر المومنین علی علیہ السلام  اور  حضرت ام البنین علیہا السلام کے فرزند ارجمند ہیں۔

آپ کی ولادت  ۴ شعبان ۲۶ ہجری  مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کی شہادت ۱۰ محرم سن ۶۱ ہجری  کربلا میں ہوئی۔

آپ نے  اپنے بابا علی مرتضی علیہ السلام کے علاوہ بھائیوں  امام حسن علیہ السلام اور  امام حسین علیہ السلام کی امامت کا دور مبارک درک فرمایا اور  اپنی تمام عمر  اطاعت امام وقت میں گزاری  ۔ آپ اپنے  جمال اور  جلال کی وجہ سے قمر بنی ہاشم  ( یعنی بنی ہاشم کا چاند)کے لقب سے معروف تھے  آپ کی  شجاعت اور ہنر رزمعرب میں معروف تھا۔ شیعوں کے نزدیک  ائمہ معصومین علیہم السلام کی اولاد میں آپ کا رتبہ بہت بلند ہے۔ مربنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس  جناب امیر المونین علی علیہ السلام

?  حضرت عباس علیہ السلام   حضرت فاطمہ علیہا السلام اور  امام سجاد علیہ السلام کی نگاہ میں

امام سجادعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ خداوند عالم میرے چچا عباس  پر رحمت نازل کرے جنہوں نے اپنے بھائی کی نصرت میں جانبازی اور ایثار کا مظاہرہ کیا یہاں تک کے انکے بازو قلم ہو گئے اور اسکے بدلے میں خداوند عالم نے انکو دو ایسے  بال و پر عطا کئےیہ جنکے ذریعہ وہ  جنت میں  ملائکہ کے درمیان پرواز کرتے ہیں۔  خداند عالم کے نزدیک انکا اتنا بڑا مقام ہے کہ قیامت کے دن تمام  شہدا ء انکی اس منزلت پر رشک کریں گے۔ (۱)

حضرت فاطمہ علیہا السلام فرماتی ہیں   کفانا لاجل هذا المقام  الیدان  المَقطوعتان مـِـن ابنی العباس ، ہمارے لئے  شفاعت کے وقت میرے بیٹے عباس کے دو کتے ہوئے بازو کافی ہوں گے۔(۲)

? کربلا میں شہادت

جناب عباس علیہ السلام  امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے علم بردار تھے،  مقاتل بیان کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو جنگ کا حکم تو نہیں دیا  لیکن بچوں کے لیئے  پانی کی سبیل کا اہتمام کرنے کا حکم دیا  ، اسی خاطر جناب عباس علیہ السلام  نہر فرات کی طرف گئے اور دشمنوں نے آپ کے دونوں بازو قلم کردئے ۔ آپ کی شہادت کی خبر سنتے ہی امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ’  الآن انکسر ظہری‘ اب میری کمر ٹوٹ گئی۔

خداوند عالم لعنت کرے ان لوگوں پر جنہوں نے امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا کو تین دن کا بھوکا پیاسہ شہید کردیا۔

امام صادق علیہ السلام آنلائن مدرسہ اس عظیم مصیبت پر  امام زمانہ عجل اللہ فرجہ اور تمام عالم اسلام کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہے۔

(۱) بحار الأنوار، ج ۲۲، ص ۲۷۴
(۲) معالی السبطین، جلد ۱، صفحہ ۴۵۲